ادب کا سرمایہ یا تجارتی جنس؟

ادب محض الفاظ کی ترتیب نہیں، یہ روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی وہ صدا ہے جو معاشروں کے مزاج، اقدار اور خوابوں کی تشکیل کرتی ہے۔ مگر آج کے عہد میں، جہاں ہر چیز کو نفع و نقصان کی میزان پر تولا جاتا ہے، وہاں ادب بھی ایک “مارکیٹ ویلیو” کی قید میں جکڑ دیا گیا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ آج کے ناشرین اور پبلشرز نے ادب کو تجارت کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ نئے قلم کار، جو سچ بولنے، معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے اور ادب کے دامن کو وسعت دینے کا خواب لیے میدان میں اترتے ہیں، انہیں نظر انداز، پس پشت، اور اکثر استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میں نے اشفاق احمد صاحب کی گفتگو : ( زاویہ) سے کیا سیکھا

ناشر کی پہلی نظر مصنف کے نام اور شہرت پر پڑتی ہے، تخلیق کی فکری گہرائی یا اسلوبی نکھار پر نہیں۔ گویا ادب نہیں، برانڈ بیچا جا رہا ہے۔ اگر مصنف غالب، منٹو، یا پروین شاکر کے پائے کا نہ ہو، تو پبلشر کی میز سے وہ مسودہ فوراً ردّی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔ اور اگر کسی مجبوری یا رعایت سے کتاب شائع بھی کر دی جائے، تو رائلٹی، تشہیر، تقسیم — سب کا کنٹرول ناشر اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، اور تخلیق کار اپنے ہی لفظوں کا مزدور بن کر رہ جاتا ہے۔

یہ معاشی، تخلیقی اور جذباتی استحصال اردو ادب کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ جو معاشرہ نئے لکھاریوں کو تخلیق کے ابتدائی دور میں ہی شکست خوردہ کر دے، وہ کبھی بھی فکری ترقی کے زینے طے نہیں کر سکتا۔

دوسری طرف، الیکٹرانک میڈیا، موبائل ایپس اور سوشل نیٹ ورکس نے مطالعہ، سنجیدہ تحریر اور کتاب سے قاری کا تعلق کمزور کر دیا ہے۔ نئی نسل کے لیے مطالعہ اب ایک غیر ضروری مشغلہ بن چکا ہے، جس کی جگہ فوری اور سطحی تفریح نے لے لی ہے۔ ایسے میں ناشرین مزید محتاط ہو گئے ہیں، اور صرف وہی کتاب چھاپتے ہیں جو “بکے” — چاہے وہ سنجیدہ ہو یا سطحی۔

یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ ناشرین کو ہر مصنف میں غالب، منٹو یا بجیا دکھائی دینے کی خواہش ہے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان عظیم شخصیات نے بھی مایوسی، مستردی اور تنقید کے مرحلوں سے گزر کر اپنا مقام حاصل کیا تھا۔ اگر ان کے دور میں بھی یہی کمرشل سوچ حاوی ہوتی تو شاید وہ بھی نہ چھپتے، نہ پہچانے جاتے۔

ہمیں اب فیصلہ کرنا ہو گا — کیا ہم ادب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا صرف فروخت پذیر مواد کو؟

یہ ہے پڑھیں: ضروری لائف سکلزجو ہر کسی کو سیکھنی چاہییں

کیا ہم نئے لکھاریوں کی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور اشاعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا انہیں مایوسی کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟

وقت آ گیا ہے کہ ادبی ادارے، سرکاری ثقافتی تنظیمیں، اور سنجیدہ قارئین مل کر نئے قلم کاروں کو وہ مقام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اشاعت صرف کاروبار نہ ہو، بلکہ ایک ادبی خدمت، ایک فکری فریضہ اور ایک تہذیبی تسلسل ہو۔ ورنہ آنے والی نسلیں صرف پرانے بزرگوں کی کتابیں پڑھیں گی — اور نئے عہد کی کوئی آواز محفوظ نہ ہو گی۔

———-

اردو آرٹیکل لکھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں