میں نے اشفاق احمد صاحب کی گفتگو : ( زاویہ) سے کیا سیکھا

اشفاق احمد پاکستان کے ایک نامور ادیب تھے جنہوں نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں ناول، مختصر کہانیاں، اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے ڈرامے شامل ہیں۔ ان کے کام کو بہت پذیرائی ملی اور ادب اور نشریات کے میدان میں ان کی شاندار خدمات پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

اشفاق احمد اپنی تحریروں کے علاوہ پی ٹی وی کے پروگراموں بیٹھک اور زاویہ کو ہوسٹ کرتے رہے۔ ان پروگراموں کے دوران وہ اپنے مداحوں خاص طور پر نوجوان سامعین سے بات چیت کرتے تھے اور انہیں ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرتے تھے۔ یہ پروگرام حکمت اور بے لوث زندگی کے اسباق سے بھرے ہوئے تھے جن کا مقصد ناظرین کو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے میں مدد کرنا تھا۔ ان کی تعلیم کی گہرائی کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ان پروگراموں کے ریکارڈ شدہ ورژن دیکھنے یا ان کی گفتگو سے مرتب کی گئی کتاب “زاویہ” ہم سب کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بلاگ پوسٹ زاویہ (حصہ 1) سے اخذ کیے گئے کچھ اسباق کا خلاصہ پیش کرنے کی چھوٹی سے کوشش ہے. یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ میری اپنی تشریحات ہیں جو کہ اشفاق احمد صاحب کے ارشادات کی پوری طرح نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔ میں ان کے سادہ لیکن معنی خیز الفاظ میں بیان کی گئی گہری حکمت کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکا. یہ بلاگ پوسٹ اشفاق احمد کی حکمت اور دانائی سے بھرپور گفتگو سے اخذ کیے گئے کچھ اسباق بتانے کی کوشش ہے جو کہ ہر اس شخص کے لیے اہم ہیں جو ایک پرسکون زندگی گزارنے کا خواہشمند ہو۔

میں قارئین کی حوصلہ افزائی کروں گا کہ وہ اشفاق احمد کی کی کتابوں کا خود مطالعہ کریں اور اپنی دانش کے مطابق  نتائج اخذ کریں۔ اس کے علاوہ والدین کے لیے اپنے نوجوان بچوں کو “زاویہ” سے متعارف کرانا ایک بہت ہی عمدہ خیال ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے انہیں زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اشفاق احمد صاحب کے فرمودات ہر اس شخص کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ہیں جو مقصد اور تکمیل سے بھر پور زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ تو آئیے اشفاق صاحب کی بصیرت پر مشتمل ان اسباق کا ذکر کریں جو میں نے اپنی ناقص عقل کے مطابق ان کی گفتگو سے حاصل کیے ہیں۔

1. مسائل ، خواہشات اور مایوسی

اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ زندگی میں ہمیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہماری زندگی کا صرف ایک حصہ ہوتے ہیں. لیکن ہم اکثر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے وہ پوری زندگی کے ساتھ جڑے ہوں۔ ہر مسئلے سے انفرادی طور پر نمٹنے کے بجائے ہم اکثر ایک مسلے کو لے کر اپنی زندگی کے ہر پہلو کو گڑبڑ کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اشفاق صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری خواہشات اکثر مایوسی کا باعث بنتی ہیں کیونکہ وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں اور ایک کے بعد ایک کر کے آتی رہتی ہیں۔ اگر ہم صرف اپنی ضروری خواہشات پر توجہ مرکوز کر لیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا نہیں ہوگا اور ہم پرسکون رہیں گے.

٢. دینے کا جذبہ اور تنقید

اشفاق احمد صاحب دینے (giving) کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم دوسروں کو دیتے ہیں وہ ہمارے اپنے وسائل سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سے ہوتا ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ وہ ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ جب ہم سے مدد مانگی جاتی ہے تو ہمیں یہ سوچ کر دینا چاہیے کہ ہم نے کونسا اپنے پاس سے دینا ہے، ہم نے تو اسی میں سے دینا ہے جو ہمیں دیا گیا ہے۔ مزید برآں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ اکثر ان جیسا بننے کی ہماری اپنی ادھوری خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ تنقید اکثر ہمارے حسد کا مظہر ہوتی ہے جو دوسروں نے حاصل کیا ہے لیکن ہم نہیں حاصل کر سکے۔

٣.  تعلیم اور ہنر

اس حصے میں اشفاق احمد صاحب نے صاحبان علم اور صاحبان قلم کا تذکرہ کیا. اس حوالے سے انھوں نے پڑھے لکھے افراد اور ہنر مند افراد کے درمیان فرق پر بحث کی ہے۔ ان کے مطابق ہنر مند لوگ اتنے ہی صاحب علم اور باشعور ہوتے ہیں جتنے کہ پڑھنے لکھنے والے۔ تاہم ہمارا معاشرہ اکثر ان لوگوں کے علم کو نظر انداز کرتا ہے جو ہنر مند ہیں. بجائے اس کے کہ ہم پڑھنے اور لکھنے کی مہارت رکھنے والوں کو زیادہ مقام اور مراعات دیں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو لوگ ہنر مند ہیں اور حقیقت میں چیزیں بناتے اور دنیا کو سنوارتے ہیں ان کا یکساں احترام کیا جانا چاہیے. کیونکہ وہ عملی لوگ ہیں جو محض باتیں کرنے کے بجائے عمل کرتے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب کا پیغام واضح ہے: ہماری زندگی صرف معلومات سے نہیں بلکہ عمل سے بھری ہونی چاہیے۔

٤. اساتذہ کی عزت

اس حصے میں اشفاق احمد نے اٹلی میں پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا ہے جب وہ وہاں بطور استاد خدمات انجام دے رہے تھے۔ ٹریفک کی خلاف ورزی پر ان پرجرمانہ عائد ہوا. جب انھوں نے اپنے جاننے والوں کو اس بارے میں بتایا تو انھوں نے اس بات کو اچھا نہیں سمجھا جس پر وہ کافی حیران ہوئے. بحرحال وہ جرمانہ ادا کرنے سے قاصر رہے تو انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ ان کو دوبارہ بہت حیرت ہوئی جب عدالت نے ان کے لیے بے حد احترام کا مظاہرہ کیا. جج بھی ان کے احترام میں کھڑا ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ان پر قانون کے مطابق جرمانہ عائد کیا گیا لیکن ان کے ساتھ جس احترام کا مظاہرہ کیا وہ بے مثال تھا۔ اس واقعے کے ذریعے اشفاق احمد اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ اساتذہ کو کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ احترام کے ساتھ رکھا جانا چاہیے۔

 ٥. مہربانی اوردوسروں کی مدد

اس حصے میں، اشفاق احمد ہمیں عمل کرنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب دوسروں کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تو ہم اکثر عمل سے زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ عملی مدد اور وسائل فراہم کرنے کے بجائے، ہم مشورے اور بیان بازی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو کہ ایک مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے وہ روزمرہ کی زندگی سے عام  مثالیں پیش کرتے ہیں، جیسے گرمی میں کسی کو پانی پیش کرنا، سردی میں کمبل فراہم کرنا، بغیر معاوضے کے پڑھانا، دفتری معاملات میں غیر ضروری اعتراضات کرنے سے گریز کرنا وغیرہ.

٦. اظہار تشکر اور تعریف کرنا

اس حصے میں اشفاق احمد دوسروں سے اظہار تشکر، ان کے اچھے کام کی تعریف کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ ہم اچھے لوگ ہیں لیکن ہم اکثر اپنے اردگرد موجود لوگوں کی تعریف کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شکریہ اور تعریف کا اظہار دوسروں کے لیے آپ کی حمایت کو ظاہر کرتا ہے اور انہیں اپنے اچھے کام کو جاری رکھنے کی ترغیب دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں، کہ ہم دوسرے لوگوں کی زندگی میں ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے انتقال کے بعد ہی ان کی تعریف اور پہچان پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک موثر طریقہ نہیں ہے۔

٧.  باطن کو پاک کرنا

اشفاق احمد باطن کو پاک کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ لوگ اکثر اپنے ماحول اور بیرونی حالات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ بیرونی عوامل میں تبدیلی خود ان میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ تاہم یہ گمراہ کن سوچ ہے. جیسے پرانی گاڑی کا رنگ تبدیل کرنے سے یہ بہتر کام نہیں کرے گی اسی طرح صرف باطن کی صفائی اور تطہیر ہی ہمارے حالات کو صحیح معنوں میں بدل سکتی ہے۔

 ٨. لوگوں اور اہلکاروں کے درمیان رابطہ

اشفاق احمد کا استدلال ہے کہ لوگ خوشی کے مواقع پر صرف ان لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں، جیسے کہ خاندان اور دوست، جبکہ ان لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے، بشمول ان کی خدمت پر مامور سرکاری اہلکاروں کے۔ تعلق اور پہچان کا یہ فقدان افسروں کو عزت حاصل کرنے کے لیے رشوت لینے کا سبب بنتا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ عہدیداروں کی مالی حیثیت کا خیال کیے بغیر ان کے لیے عزت اور محبت کا مظاہرہ کرنے سے رشوت خوری کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے اور غلط کاموں میں ملوث نہ ہونے کے لیے ان کے شعور کو بڑھایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس سے ان کی ساکھ اور عزت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

٩. خدا کا نظام

اشفاق احمد اللہ کے نظام کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں جو سطحی طور پر غیر منصفانہ دکھائی دیتا  ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ امیر ہیں جبکہ دوسرے غریب ہیں، اور کچھ صحت مند ہیں جبکہ کچھ بیمار ہیں۔ تاہم اشفاق احمد بتاتے ہیں کے خدا نے زندگی کی بنیادی چیزیں مفت فراہم کی ہیں لیکن جب دولت کی بات آتی ہے تو وہ ہمیں جو کچھ دیتا ہے وہ صرف ہمارا نہیں ہوتا۔ اس میں دوسروں کے لیے حصہ شامل ہوتا ہے جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو غیر منصفانہ نظام ہم دیکھتے ہیں وہ ہم نے خود بنایا ہے اور یہ کہ ہم ہی اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ ناانصافی کا باعث ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ ناانصافی ہمیں ماضی میں رہنے اور مستقبل سے ڈرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ جبکہ جو لوگ شکر گزاری کے ساتھ واقعی حال میں رہتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ وہ ہیں جو ماضی میں نہیں رہتے اور نہ ہی مستقبل سے ڈرتے ہیں۔

وہ سکندر اعظم کا واقعہ بتاتےہیں جو ایک متقی آدمی سے ملنے گیا جو ساحل پر قلابازیاں  لگا رہا تھا اور کرتب دکھا رہا تھا۔ جب اس نے سکندر کو بھی ایسا کرنے کو کہا تو سکندر اعظم نے جواب دیا کہ جب وہ باقی کی آدھی دنیا کو بھی فتح کر لے گا تو آ کے آپ کے ساتھ قلابازیاں لگاۓ گا۔ متقی آدمی نے جواب دیا کہ تم بڑے بدقسمت ہو تم دنیا فتح کر کے چھلانگیں لگاؤ گے جبکہ میں آدھی بھی فتح کیے بغیر بھی اچھل رہا ہوں۔

١٠. مدد طلب نہ کرنا اور صلاحیتوں پر انحصار کرنا

اشفاق احمد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم اکثر اپنی زندگی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں پر انحصارکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں. خاص طور پر ہم میں سے جو پڑھے لکھے اور اچھے ہیں وہ ایسا کرتے ہیں۔ ایسا وقت آتا ہے جب ہمیں دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہم زندگی میں جو حل تلاش کر رہے ہیں اس تک پہنچ سکیں یا مشکل راستے سے گزر سکیں۔ مزید برآں یہ کہ ہم میں سے پڑھے لکھے لوگ بعض اوقات اپنے علم کے ذریعے دوسروں پر دھاک بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں. اس سے تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ عام لوگوں کی نفرت پیدا ہو سکتی ہے اور اس طرح وہ لوگ علم سے مزید دور ہو جاتے ہیں۔

١١. عزم اور لگن

پاکستان کی ایک ان پڑھ دیہاتی لڑکی کی کہانی بیان کرتے ہوئے جو یورپ میں ایک اعلیٰ کاروباری خاتون بن گئی، اشفاق احمد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی توانائیاں ان شعبوں پر مرکوز کریں جہاں ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ روحانی ہو یا مادی تو ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں. اپنے آپ کے ساتھ واضح عزم اور لگن کے ساتھ کچھ بھی ممکن ہے۔

١٢. خدا کے احکامات اور اس کی مرضی

اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ بحیثیت انسان ہمارا تجسس ایک مثبت خصلت ہے لیکن یہ خدا کی مرضی میں ہماری مداخلت کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں عدم توازن کا احساس ہوتا ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ برے لوگ بظاہر زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اچھے لوگ جدوجہد کرتے ہیں. پھرہم سوال کرنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا سوال اٹھانے سے پہلے ہم اللہ کے احکامات پر مکمل عمل کرنے کا اپنا فرض بھول جاتے ہیں. لہٰذا ہم کچھ نہیں سمجھ پاتے اور تنقید کرنے لگتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے بغیر کسی استثنا کے احکام الہی میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔

١٣. شیئرنگ

اشفاق احمد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اگرچہ دینا یقیناً ایک نیک عمل ہے لیکن شیئر کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جن لوگوں کی ہم مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بعض اوقات شاید مادی چیزوں کی ضرورت نہ ہو، بلکہ ہماری موجودگی، ان کے خیالات اور احساسات کو بانٹنے کے لیے ہماری رضامندی، اور سننے کی ہماری صلاحیت کی ضرورت ہو۔ خدا نے ہمیں وہ سب کچھ فراہم کیا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور اس نے ہمیں یہ سب اشتراک کے اصولوں کی بنیاد پر عطا کیا ہے.  نہ صرف ہمارے ساتھی انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی، جیسے کہ ہوا اور پانی وغیرہ ۔ بدقسمتی سے ہم انسانوں میں اکثر ایک ساتھ رہنے اور اشتراک کرنے کے بجائے فتح کرنے اور کنٹرول کرنے کی کوششوں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

١٤. دوسروں کو شرمندہ نہ کریں۔

اشفاق احمد پڑھے لکھے اور قابل کمیونٹی کے درمیان ایک مروجہ مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم جیسے تعلیم یافتہ افراد ترقی میں کمی کی وجہ صرف اور صرف ناخواندگی اور جہالت کو قرار دیتے ہیں لیکن یہ بات ان لوگوں کے لیے توہین آمیز ہو سکتی ہے جنہیں تعلیم تک رسائی اور کامیابی کے حصول میں چیلنجز کا سامنا رہا ہو۔ اس قسم کا رویہ خاص طور پر اس وقت عام ہوتا ہے جب لوگ اپنی کامیابی کی کہانیوں پر فخر کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ان کی کامیابیاں صرف اور صرف ان کی محنت اور عزم کا نتیجہ ہیں۔ اس سے دوسروں کو شرمندگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے شاید اس سے بھی زیادہ جدوجہد کی ہو لیکن کامیابی کی اسی سطح کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے الفاظ کے اثرات سے آگاہ رہیں اور مباحثوں میں بھی ایسے دلائل سے بچیں جو دوسروں کے لیے شکست یا حوصلہ شکنی کا باعث بنیں۔

١٥. بغیر دیے لینا

اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ کس طرح ہمارے ملک کی بنیاد بے لوثی اور قربانی کے اصولوں پر رکھی گئی تھی، ایسے افراد کے ساتھ جو اپنی قوم کے لیے اپنا سب کچھ دینے کو تیار تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ، لینے سے پہلے دینے کی یہ ذہنیت کمزور ہوتی گئی اور بغیر دیے لینے کی ذہنیت میں تبدیل ہو گئی۔ وہ ایک ایسے شخص کی مثال دیتے ہیں جس نے پاکستان اسٹیل مل میں مشین چلاتے ہوئے اپنی ٹانگیں کٹوانے کے باوجود اپنے ساتھیوں سے التجا کی کہ وہ مشین بند نہ کریں کیونکہ اس سے ملک کو ایک ملین روپے کا نقصان ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آدمی جیسے لوگ ہی ہماری قوم کے حقیقی ہیرو ہیں جو بدلے میں کسی بھی چیز کی توقع کیے بغیر، یہاں تک کہ باغبان کے طور پر اپنی چھوٹی چھوٹی صلاحیتوں کے مطابق بھی ملک کو بہت کچھ  دیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت ان لوگوں کا غلبہ ہے جو دیتے تو بہت کم ہیں مگر ملک سے لیتے زیادہ ہیں۔

١٦. نیک لوگوں کی تلاش

اشفاق احمد کے مطابق نیک اور پرہیزگار لوگوں کی تلاش کرنے میں مشکل ہونے کی وجہ ہماری انا ہے۔ ہم ان لوگوں صرف ان میں نیک لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو اعلی سماجی حیثیت کے حامل ہوں. اگر ہم انہیں اپنے سے کم درجہ کے لوگوں میں پاتے ہیں تو ہماری انا مجروح ہوتی ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنے سے روکتا ہے کہ اچھے لوگ ہمارے درمیان پائے جا سکتے ہیں، بشمول ہمارے ساتھی اور جونیئرز کے۔ نیک لوگوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے موجودہ حالات پر ہمیشہ مطمئن رہتے ہیں، شکایت نہیں کرتے اور اپنے ایمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسے افراد ہی “با بے” ہوتے ہیں اور وہ ہمارے ارد گرد ہی پاۓ جاتے ہیں لیکن ہم اپنی انا کے پردے کی وجہ سے ان کو دیکھ نہیں پاتے.

١٧. سنے جانے کی طلب

اشفاق احمد ہمیں شکایت کے سب سے عام رویہ پر توجہ دینے کی تلقین کرتے ہیں: وہ ہے کہ کوئی ہمیں سمجھتا نہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کو بتانے اور سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں جاتا اور غلط سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر گھریلو مسائل میں عام ہے، جب بہت سی خواتین کو لگتا ہے کہ ان کی آواز نہیں سنی جا رہی ہے۔ اشفاق احمد ہمیں مشورہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں زیادہ نہ جانیں، کیونکہ ہم جتنا زیادہ ظاہر کرتے ہیں ہماری خامیاں زیادہ واضح ہوتی جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت زیادہ بات کرنے، بتانے اور لیکچر دینے کے رجحان سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔

١٨. صبر کی اہمیت

اشفاق احمد صبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ صبر کا اصل جوہر یہ ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے آپ کو مشکلات سے مایوس نہ ہونے دیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم خود کو ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے پائیں تو بھی ہمیں اپنے ہارن بجانے یا اسٹیئرنگ وہیل پر ہاتھ مارنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب ہم مصیبت میں ہیں. صبر کے حقیقی مظاہرہ کے ساتھ وہ ہماری مشکلات سے نکلنے میں ہماری مدد کرے گا۔ اسی صبر کو علم کے حصول کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے کیونکہ تمام علم اللہ کے پاس ہے اور وہ ہمیں وقت آنے پر فراہم کرے گا۔

١٩. حال میں رہیں

اشفاق احمد ماضی پر پشیمان ہونے یا مستقبل کی فکر کرنے کی بجائے ہمیں حال میں جینے کی تلقین کرتے ہیں. اس تناظر میں وہ ایک مزدور کی متاثر کن کہانی پیش کرتے ہیں۔ مزدور نے اپنے گھر میں کھلتے پھول کی خوبصورتی کا مزہ لینے اور اپنے بچے کو پہلی دفعہ قدم بڑھا کے چلتے ہوئے دیکھنے کے لیے ایک دن کی مزدوری چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ وہ ان لمحات کو دیکھنے اور انجوائے کرنے کے لیے گھر میں رہنا چاہتا تھا۔ اشفاق احمد ہمیں اپنے موجودہ لمحات کو ان پھلوں کے غم میں ضائع کرنے سے منع کرتے ہیں جو ہم حاصل نہیں کر سکے یا ان پھلوں کی فراوانی کے خواب دیکھنے میں جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماضی کی فکر اور مستقبل کے اندیشوں سے ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں سکون سے نہیں رہ سکتے.

٢٠. دعا اور عاجزی

اشفاق احمد صاحب دعا کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے ہیں. وہ بتاتے ہیں کہ دعا کے معاملے میں ہم بہت غلطیاں کرتے ہیں. ہم اپنی انا کو توڑے بغیر دعا مانگتے ہیں یا پھر ہم بہت چھوٹا پھول مانگتے ہیں جبکہ قدرت نے ہمارے لیے ٹوکرا بھر کے رکھا ہوتا ہے. پھر جب ہم جلدی میں مکمل عاجزی سے خالی دعایں بہت زیادہ مانگ لیتے ہیں تو شکوہ شروع کر دیتے ہیں. انسان بے صبرا ہے اور اکثر کہتا ہے صرف میں ہی کیوں. طرح طرح سے شکوے شکایتیں کرتا ہے. تو وہ بتاتے ہیں کہ جب بھی دعا مانگو تو ایسے مانگو جیسے بچہ بلک رہا ہوتا ہے. اپنی انا کے خول سے نکل کے مانگو بلکہ ایسا کرو کہ لکھ کہ مانگو. جیسے ہم دنیا میں بہت سے کاموں کے لیے لکھ کے درخواستیں دیتے ہیں اور پھر ان کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اپنے اللہ سے بھی لکھ کے مانگو. اپنی قابلیت، عقل مندی یا تعلیم و ہنر کے خول سے باہر نکل کے بلکل ایک لاچار بچے کی طرح.

٢١. اتحاد کیسے حاصل کیا جائے؟

اشفاق احمد ہماری توجہ ایک مایوس کن حقیقت کی طرف مبذول کراتے ہیں: وہ یہ کہ لوگوں میں اتحاد کا فقدان۔ اتحاد کی اہمیت پر لاتعداد لوگوں کے لکھنے، لیکچر دینے اور بحث کرنے کے باوجود، یہاں تک کہ جماعتیں اور تنظیمیں اس موضوع پر باقاعدگی سے لٹریچر شائع کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اتحاد قائم نہیں ہوتا بلکہ لگاتار اس اتحاد میں کمی آ رہی. اشفاق صاحب کے مطابق ایسا ہونا ‘عمل’ میں کمی کی وجہ سے ہے۔ ہم دوسروں کی مدد کرنے کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں، خاص طور پر تعلیم یافتہ افراد، لیکن شاذ و نادر ہی ہم دوسروں کی مدد کرنے کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہیں۔ جب تک ہم ایک دوسرے کی مدد کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے، لوگوں کے درمیان کوئی ایسا حقیقی تعلق قائم نہیں ہو سکتا جو انہیں متحد رکھ سکے۔

٢٢. مسابقت کے نقصان دہ اثرات

اشفاق احمد کے مطابق مقابلے کا تصور جو ہمیں سکھایا جاتا ہے وہ ناقص ہے۔ وہ  کہتے ہیں کہ مقابلہ تب ہی فائدہ مند ہے جب یہ تقویٰ کے لیے ہو۔ مسابقت کی کوئی بھی دوسری شکل ہماری اور دوسروں کی عزت نفس کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ پیغام ایک ایسے معاشرے میں بہت اہم ہے جہاں ہم اکثر اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول تعلیم، کیریئر اور یہاں تک کہ ذاتی تعلقات میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بنانے اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر توجہ مرکوز کریں، بجائے اس کے کہ ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔

٢٣. ہماری خواہشات کی تکمیل

اشفاق احمد کے مطابق ہم خود ہی اکثراپنی خواہشات کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر انھیں سبوتاژ کرتے ہیں۔ ہماری بے صبری اور فوری تسکین کی خواہش ہمارے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ تاہم اگر ہم حقیقی طور پر کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں اور کوشش کرنے کو تیار ہوتے ہیں تو قدرت بھی اس کی تکمیل میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ اپنی امنگوں کو حاصل کرنے کے لئے ایک عملی پراسیس کی ضرورت ہے جو استقامت ، لچک اور صبر کا مطالبہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم بار بار اس عمل میں خلل ڈالتے ہیں جو ہمیں اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول سے روکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لئے عملی پراسیس پر بھروسہ کرنا ، صبر کرنا ، اور مستقل طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنا سیکھنا چاہیے۔

٢٤. خدا ہم سے کیسے بات کرتا ہے؟

اشفاق احمد ہمیں سکھاتے ہیں کہ خدا ہم سے ایسے طریقوں سے بات کرتا ہے جو ہمیشہ واضح یا آسانی سے پہچانے جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق خدا کا پیغام اکثر دوسرے لوگوں کے اعمال اور الفاظ کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غور سے سنیں اور مناسب جواب دیں۔ تاہم، وہ بتاتے ہیں کہ ہم اکثر ان پیغامات کو پہچان نہیں سکتے کیونکہ ہم بہت زیادہ مشغول یا اپنی زندگیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم بہانے بناتے ہیں اور اپنی بے عملی کی تاویلیں ڈھونڈتے ہیں. خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے، ہمیں اپنی خود غرض خواہشات اور انا پر مبنی خدشات پر بھی قابو پانا چاہیے۔ اس کے لیے دوسروں کی ضروریات کو اپنے اوپر فوقیت دینے کے لیے آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے. اس کے لیے ہمدردی اور مہربانی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بیشک ایسا کرنا مشکل یا تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو۔

٢٥. نصیحت اور عمل

جو کچھ ہم سکھاتے ہیں اس پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ اکثر ہم ماضی کی چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہیں اور بڑی شخصیات کی مثالیں دیتے ہیں. لیکن جب بات ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ مثال کے طور پرہم سکھاتے ہیں کہ معاف کرنا اچھا ہے لیکن جب یہ ہمارے سامنے آتا ہے تو ہمیں معاف کرنا مشکل لگتا ہے۔ اشفاق احمد کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کچھ خاص خوبیوں کے بارے میں نصیحت دینا اور تبلیغ کرنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں انہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی شامل کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہم نہ صرف بہتر افراد بنتے ہیں بلکہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس کی پیروی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں. کیونکہ لوگ زیادہ تر مشورے کے بجائے ہمارے ایکشنز پرعمل کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ بچے کو نصیحت تو کریں کہ گستاخی کرنا اچھی بات نہیں مگر آپ اس کے سامنے دوسروں کی گستاخی کریں تو وہ یقیناً آپ کی نصیحت کے بجاۓ عمل کی پیروی کرے گا.

٢٦. مادی املاک سے آزادی

اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں مادی چیزوں کے ساتھ حد سے زیادہ وابستگی ہو جاتی ہے. ہم اکثر اپنی خودی کو اپنی املاک اور چیزوں کے ساتھ نسبت سے دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں ہماری چیزیں ہمارے لیے محض اشیاء سے بڑھ کراہم ہو جاتی ہیں. ہم جذباتی طور پر ان سے جڑ جاتے ہیں اور انہیں اپنی شناخت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ تاہم اشفاق احمد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی میں ہر چیز بشمول مادی اثاثوں کے ایک محدود وجود رکھتی ہے. یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری قدر کا تعین ہماری ملکیت میں ہونے والی اشیا اور اثاثوں سے نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے ہماری اہمیت دوسرے انسانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور اپنے آس پاس کی دنیا پر مثبت اثر ڈالنے کی ہماری صلاحیت سے پیدا ہوتی ہے۔ مادی املاک سے اپنی لگاؤ کو کم کر کے ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے اور زیادہ بامعنی زندگی گزارنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

٢٧. مہربانی کا چھوٹا عمل

اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے عظیم الشان کام کرنے کی خواہش سے خود کو مغلوب کرنے کے بجائے ہمیں مہربانی کے چھوٹے کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔ کئی بار ہم غریبوں کے لیے ہسپتال بنانے یا یتیموں کے لیے اسکول کھولنے جیسا کوئی اہم کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کام کی وسعت کی وجہ سے ہم حوصلہ کھو دیتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہم پہلا قدم اٹھائیں اور احسان کے چھوٹے کاموں سے شروع کریں۔ چھوٹے قدم کے ساتھ شروع کرنے سے جیسے کہ صرف ایک انسان کی مدد کرنے سے ہم بڑے مقاصد کے حصول کی طرف مزید قدم اٹھانے کے لیے تحریک اور ترغیب حاصل کر سکتے ہیں۔ مہربانی کے یہ چھوٹے چھوٹے اعمال ایک لہر کا اثر پیدا کر تے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جس سے دنیا میں ایک مثبت تبدیلی آتی ہے۔

میں نے اشفاق احمد صاحب کی گفتگو : ( زاویہ) سے کیا سیکھا“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں