حالیہ برسوں میں کریپٹو کرنسی کا استعمال مالیاتی لین دین میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کرپٹو کرنسی کو پیسے کے مستقبل کے طور پر بھی بتایا جا رہا ہے. کرپٹو واقعی ایک ایسی اختراع ہے جو ہمارے لین دین کے طریقے میں انقلاب لا سکتی ہے۔
تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ cryptocurrency اور قدیم بارٹر سسٹم میں کچھ مماثلتیں ہیں؟ حالانکہ بارٹرنظام میں ظاہری سامان اور خدمات کا تبادلہ شامل ہے جبکہ کرپٹو کی دنیا ڈیجیٹل اثاثوں (assets digital) کے بارے میں ہے جو ظاہری طور پر دیکھے اور چھوئے نہیں جا سکتے.
یہ بھی پڑھیں: پیسے کا مستقبل: کرپٹو کرنسی کیا ہے؟
اس بلاگ پوسٹ میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ کریپٹو کرنسی اور بارٹر سسٹم میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے اور ہم ان مماثلتوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
قدر (value) کا براہ راست تبادلہ
بارٹر سسٹم میں سامان اور خدمات کا تبادلہ کرنسی کی ضرورت کے بغیر کیا جاتا ہے۔ جب کرنسی کا استعمال نہیں ہوتا تو مڈل مین یعنی کرنسی مہیا کرنے والا (جیسے کہ سرکار یا سنٹرل بنک) کی ضرورت بھی نہیں رہتی. اسی طرح کرپٹو کرنسی کےاستعمال سے بھی آپسی لین دین کسی مڈل مین (اتھارٹی) کی ضرورت کے بغیر کیا جاتا ہے. کیونکہ کرپٹو پر حکومت یا مرکزی بنک کا اختیار نہیں ہوتا اور نہ وہ اسے ریگولیٹ کرتے ہیں. لین دین کسی مرکزی اتھارٹی کی ضرورت کے بغیر براہ راست رقم بھیجنے والے اور وصول کنندہ (peer-to-peer) کے درمیان ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر بارٹر سسٹم میں ایک کسان فرنیچر کے بدلے بڑھئی کے ساتھ فصلوں کی تجارت کرتا ہے۔ جس میں کرنسی کا کوئی کردار نہیں ہوتا. ایسے ہی کریپٹو کرنسی کی صورت میں قدر کا براہ راست تبادلہ دو اشخاص کے درمیان ہو گا. اگر ایک کے والٹ میں بٹ کوائن ہے تو وہ بغیر کسی بنک کی مدد کے دوسرے کے والٹ میں بھیج سکتا ہے یا اس سے کسی دوسری کرپٹو کرنسی جیسے کہ Ethereum ایتھریم وغیرہ کا تبادلہ کر سکتا ہے۔
طلب اور رسد کے ذریعے قدر کا تعین
بارٹر سسٹم میں سامان اور خدمات کی قیمت کا تعین لین دین میں شامل دونوں فریقوں کے درمیان باہمی معاہدے (طلب اور رسد) سے ہوتا ہے۔ اسی طرح cryptocurrency کے معاملے میں بھی ڈیجیٹل اثاثوں کی قیمت کا تعین بھی مارکیٹ میں صرف طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ عام کرنسی (fiat money ) کے برعکس کریپٹو کرنسی کی سپلائی محدود ہوتی ہے جو اس کی قدر میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کاروبار اور بینکاری: بنیادی معلومات
مثال کے طور پر بارٹر سسٹم میں ایک رنگ ساز ایک ماہ کے دانوں (گندم) کے بدلے میں ایک کاشتکار کے گھر میں رنگ سازی کا کام کرنے پر راضی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ قدر کا تعین خالص طلب اور رسد کے ذریعے طے ہوتا ہے. اسی طرح کرپٹو کی دنیا میں بھی ڈیجیٹل اثاثوں کی قیمت کا تعین صرف مارکیٹ میں طلب اور رسد سے طے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بٹ کوائن کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب زیادہ لوگ اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ اس قدر کے بڑھنے میں کسی ادارے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا.
عام کرنسی (جو ہم استعمال کرتے ہیں) کی قدر کے تعین میں تیسرے فریق یعنی حکومت یا مرکزی بنک کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے.
محدود دستیابی (Limited Supply)
بارٹر سسٹم میں اشیا اور خدمات کی دستیابی اسی حد تک محدود ہوتی ہے جو کسی بھی کمیونٹی کے اندر پیدا یا دستیاب ہوتی ہیں۔ اسی طرح کرپٹو کرنسی کی دستیابی بھی اسی حد تک محدود ہوتی ہے جو ایک نیٹ ورک کے اندر کرپٹو مائننگ کے ذریعے دستیاب ہوتی ہے۔ محدود دستیابی بارٹرنگ اور کریپٹو کرنسی دونوں کی قدر (value) میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
مثال کے طور پرایک کسان کے پاس کمیونٹی میں دوسروں کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے صرف محدود مقدار میں فصلیں ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح کرپٹو کرنسی کی مائننگ (کرپٹو کرنسی بنانے کا عمل) بھی ایک حد تک مخصوص ہوتی ہے جیسے کہ بٹ کوائن کی کل سپلائی 21 ملین تک محدود ہے۔
بٹ کوائن کی کل سپلائی 21 ملین میں سے فی الحال تقریبا 19 ملین بٹ کوائنز کی مائننگ کی جا چکی ہے. اس طرح تقریباً 2 ملین بٹ کوائنز کی مائننگ باقی ہے۔ چونکہ نئے بٹ کوائنز کی مائننگ کی شرح وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اس لیے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ آخری بٹ کوائن کی مائننگ سال 2140 میں کی جائے گی۔
اس کے بعد کوئی نیا بٹ کوائن نہیں بنایا جائے گا اور کل سپلائی ہمیشہ کے لیے 21 ملین پر ہی رہے گی۔ سپلائی پر یہ حد بٹ کوائن کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے اور اس کا مقصد وقت کے ساتھ افراط زر (inflation) کو روکنا ہے۔
مہنگائی کے خلاف تحفظ
بارٹر سسٹم میں افراط زر (inflation) کا کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ اشیا اور خدمات کی قیمت ایک جیسی رہتی ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل کرپٹو کرنسی کی محدود فراہمی بھی افراط زر نہ ہونے کا سبب بنتی ہے. عام کرنسی کی صورت میں حکومت کی جانب سے زیادہ سے زیادہ کرنسی پرنٹنگ افراط زرکی ایک بڑی وجہ ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم بارٹر نظام کی بات کریں تو ایک روٹی کی آج بھی وہی قیمت ہوگی جو 100 سال پہلے تھی۔ اس طرح چونکہ cryptocurrencies کی قیمت کا تعین حکومت یا مرکزی اتھارٹی کے بجائے صرف مارکیٹ فورسز (سپلائی اور ڈیمانڈ) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب تک خریداروں اور فروخت کرنے والوں کے درمیان توازن موجود رہے گا قیمت مستحکم رہی گی اور تیسری قوت اسے متاثر نہیں کر سکے گی۔
خطرات
اوپربیان کی گئی چند مماثلتیں دونوں نظاموں کو بلکل ایک جیسا نہیں بناتیں. کرپٹو کرنسی کی صورت میں کسی مرکزی اتھارٹی کا ریگولیٹر کے طور پہ کام نہ کرنا اگر ایک طرف سودمند ہے تو وہیں اس کی وجہ سے بہت سے خطرات بھی پاۓ جاتے ہیں. کچھ مالیاتی جرائم پیشہ افراد اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معصوم لوگوں کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں جو کہ مجموعی طور پر کرپٹو نظام کی بدنامی کا باعث بنتا ہے.
اس لیے ضروری ہے کہ کرپٹو اثاثوں میں سرمایا کاری کرتے وقت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہییں. اس ضمن میں کسی ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کرنا بھی ایک بہترین عمل ہو سکتا ہے.
خلاصہ
کرپٹو کرنسی بلا شبہ قدیم بارٹر سسٹم کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن ان کے درمیان فرق کو بھی سمجھنا انتہائی ضروری ہے. دونوں نظام قدر (value) کے براہ راست تبادلے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں. باہمی معاہدے یا خالصتا طلب اور رسد (demand and supply) کے ذریعے قدر کے تعین پر انحصار کرتے ہیں. اس کے علاوہ محدود دستیابی کی خصوصیات کی وجہ سےافراط زر کے خلاف تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
کریپٹو کرنسی ہمارے لین دین کے طریقوں میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو افراد کے درمیان قدر کے تبادلے کا ایک ڈائریکٹ، محفوظ، موثر اور شفاف طریقہ فراہم کرتی ہے۔ جیسے جیسے دنیا کرنسی نوٹوں یا سکوں کے بغیر معاشروں کی طرف بڑھ رہی ہے ہمیں بھی کرپٹو کرنسی کو پیسے کے مستقبل کے طور پر اپنانے پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ متصل خطرات کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنےپہ بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال عام افراد کے لیے محفوظ طریقے سے ممکن ہو سکے.