پاکستان کی حکومت نے بڑھتے ہوئے ٹیکس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ایک متبادل منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ منی بجٹ سے بچا جا سکے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کی جانب سے تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز کو مسترد کرنے کے بعد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سوشلزم اور اسلام : معیشت کا تقابلی جائزہ
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین اس متبادل حکمت عملی پر عمل درآمد کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں جن میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے مختلف اقدامات زیر غور آئیں گے، جن میں:
ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان: ایف بی آر کے فریم ورک کو جدید بنانے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کا منصوبہ ہے۔
ٹریڈرز اسکیم اور ڈیٹا شیئرنگ: رجسٹرڈ تاجروں کا ڈیٹا آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا جائے گا تاکہ شفافیت اور عمل درآمد کو بہتر بنایا جا سکے۔
ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم: پانچ مختلف سیکٹرز میں اس سسٹم کی تنصیب متوقع ہے جبکہ ٹائل سیکٹر میں بھی اس کا دائرہ کار بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ٹیکس شارٹ فال اور موجودہ کارکردگی
ایف بی آر نے جولائی سے اکتوبر کے دوران تاجروں سے 17 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن وہ اس ہدف سے پیچھے رہ گیا۔ نومبر کے آخر تک ایف بی آر نے 4.28 کھرب روپے جمع کیے جبکہ ہدف 4.64 کھرب روپے تھا، جو 356 ارب روپے کے شارٹ فال کی نشاندہی کرتا ہے۔
حکومتی مراعات اور چیلنج
ٹیکس افسران کے لیے نئی مراعات، جیسے 1300 سی سی گاڑیاں اور اضافی تنخواہیں، متعارف کرانے کے باوجود ٹیکس کلیکشن میں بہتری نہ آسکی۔ حکومت نے پی او ایس فیس کے ذریعے جمع شدہ فنڈز کو ڈیجیٹل اقدامات کی بجائے افسران کی مراعات کے لیے استعمال کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کی ٹیکس حکمت عملی اور ٹیکس اہداف کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس اہداف میں ناکامی کو اہم مسئلہ قرار دیا ہے، خاص طور پر بالواسطہ ٹیکسوں جیسے سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، اور کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی میں۔
مستقبل کا منظرنامہ
آئی ایم ایف دسمبر کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرے گا کہ آیا منی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کھاد، درآمدات اور کنٹریکٹرز کی آمدنی جیسے شعبے نئے ٹیکس کے ممکنہ اہداف ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: فری لانسنگ کے فائدے اور نقصانات: ایک جامع جائزہ
پاکستان کے لیے ٹیکس خسارے کو پورا کرنا ایک مشکل چیلنج بن چکا ہے۔ جدید اصلاحات اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے باوجود، موثر عمل درآمد کی کمی اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ٹیکس وصولی میں بہتری کے بغیر، معیشت کے لیے مزید مالی مشکلات کا سامنا ناگزیر ہے۔