1964 میں پاکستان کے آل راؤنڈر “مشتاق محمد” نے کرکٹ کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔ “Rotherham’s Cavaliers” کے لیے ایک کلب میچ میں کھیلتے ہوئے “مشتاق” کا سامنا اس وقت کے ایک بڑے گیند باز “فریڈ ٹِٹمس” سے ہوا۔ انگلینڈ اور مڈل سیکس کے اس آف اسپنر نے بیٹسمین کے لیے ایک تنگ فیلڈنگ سیٹ کر رکھی تھی اور ایک دائرے کے اندر انتہائی نپی تلی بولنگ کروا رہا تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے مشتاق کے لئے سکور کرنے کو صرف ایک ہی گیپ بچا تھا – تھرڈ مین ۔ مشتاق نے فریڈ کی بال پرگھٹنے ٹیکتے ہوئے leg سے off کی جانب افقی آرک میں بلے کو جھولتے ہوئے شاٹ بنایا اور چوکا جڑ دیا. انھوں نے بعد میں خوشی سے بتایا، ’’میں نے یہ شاٹ پہلے سے سوچ لیا تھا اور پھر یہ جڑ گیا اور چار رنز کے لیے باؤنڈری تک چلا گیا‘‘
حیرت زدہ کپتان “ٹرومین” نے اپیل کی جبکہ بیچارہ بوڑھا “فریڈی”۔ اس نے جنگلی انداز میں اپنے بال نوچ لیے! امپائر نے فریڈی سے کہا، “تمہارے ہاتھ میں گیند ہے اس کے پاس بلّا ہے۔ وہ اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔” اور وہیں سے کرکٹ میں ریورس سویپ ایجاد ہوئی۔
آرٹیکل: کرکٹ کے بارے میں 12 دلچسپ معلومات جو شاید آپ کو معلوم نہ ہوں
تقریباً چھ دہائیوں کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے ریورس سویپ 21ویں صدی کے کرکٹرز کی ایک معمول کی عادت بن گئی ہے – کرکٹ کی زبان میں ریورس سویپ اب اجنبی لفظ نہیں ہے۔
مشتاق محمد کے علاوہ یقیناً ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہوں نے اس اسٹروک کو مقبول کیا۔ مشتاق کے بھائی حنیف محمد نے سب سے پہلے اسے بین الاقوامی کرکٹ میں متعارف کیا جب انھوں نے 1967 میں لارڈز میں انگلینڈ کے خلاف اپنے شاندار 187 رنز میں یہ زبردست اسٹروک کھیلا۔ پچھلی صدی کے اختتام تک ریورس سویپ ایک جائز لیکن نایاب شاٹ تھا۔
2003 میں کرکٹ کا انداز کافی بدل گیا. ٹی 20 کرکٹ کی شروعات نے اس کھیل کے تمام پہلوؤں میں انقلاب برپا کر دیا۔ شاید سب سے اہم تبدیلی یہ کہ اس نے بلے باز کی ذہنیت اور انداز کو کافی بدل دیا۔ اب سنگلز کافی نہیں تھے بلکہ باؤنڈریز کی ضرورت تھی اور کھلاڑی تخلیقی ہو گئے – ایسے میں ریورس سویپ بلے بازوں کا ایک مقبول انتخاب بن گیا۔
کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ میں اے بی ڈی ویلیئرز اور ڈیوڈ وارنر جیسے وائٹ بال کے عظیم کھلاڑیوں نے اس اسٹروک کو زبردست انداز میں پیش کیا۔ ڈی ویلیئرز نے ویسٹ انڈیز کے تیز گیند باز جیروم ٹیلر کو باؤنڈری کے لیے ریورس سویپ کیا جب انھوں نے 44 گیندوں پر 149 رنز بناۓ اور تیز ترین سنچری کا ریکارڈ اپنے نام کیا. جو تمام طرز کی کرکٹ میں اب تک کی تیز ترین سنچری ہے۔ جوس بٹلر بھی ایک ریورس سویپ ماہر کے طور پر ذہن میں آتا ہے۔ ٹی 20 بین الاقوامی میچوں میں بیٹنگ کا آغاز کرتے ہوئے حیران کن 48.67 کی اوسط کے ساتھ، بٹلر نے اپنے 95 ٹی ٹوئنٹی اور 157 ون ڈے میچوں میں ریورس سویپ اسٹروک کا بے دریغ استعمال کیا۔ انھوں نے انگلینڈ کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی شاندار کامیابی میں بہت ہی کارآمد مدد فراہم کی۔
ٹیسٹ کے میدان میں بھی ریورس سویپ مشہور بلے بازوں کا باقاعدہ ایک پسندیدہ سٹروک بن چکا ہے۔ انگلینڈ کے سابق کپتان جو روٹ باقاعدہ ریورس سویپر ہیں. روٹ نے 2021 میں سری لنکا کے دورے کے دوران قیادت کرتے ہوئے دو میچوں کی سیریز میں 106.50 کی اوسط سے 426 رنز بنائے۔ سب سے زیادہ تباہ کن پہلے ٹیسٹ میں ان کے 228 رنز تھے جس میں انہوں نے متعدد بار ریورس سویپ کرتے ہوئے سری لنکا کے اسپن اٹیک کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
آسٹریلوی کھلاڑی عثمان خواجہ ٹیسٹ میچوں میں ایک اور تباہ کن ریورس سویپر ہیں۔ اپنے ڈیبیو کے بعد سے بائیں ہاتھ کے کھلاڑی نے ٹیسٹ کرکٹ کے اپنے پہلے چھ سالوں میں صرف تین بار یہ شاٹ کھیلا تھا – ایک بارتواپنی وکٹ بھی گنوا بیٹھے۔ لیکن پھر 2018 میں خواجہ کے لیے کچھ الگ ہوا. اس سال اس نے اسپن کی 599 ڈیلیوریوں میں سے 31 کو ریورس سویپ کیا۔ پاکستان کے خلاف اپنے بہترین 141 رنز میں انھوں نے 21 بار اس شاندار اسٹروک کو کھیلا. اس طرح خواجہ نے آسٹریلیا کے مشہور ڈرا کو یقینی بنانے کے لیے زبردست اور خطرناک اسپنر یاسر شاہ پر غلبہ حاصل کیا۔ انھوں نے بعد میں بتایا “جب بھی آپ رنز بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ہمیشہ ایک خطرہ ہوتا ہے، اس لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے”۔
خواجہ کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن 1987 کے ورلڈ کپ فائنل میں انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ 44 کے سکور پرکولکتہ اسٹیڈیم میں بھرے ہجوم کے سامنے ایک مناسب آسٹریلوی ٹارگٹ 253 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے مائیک نے ایک مہلک غلطی کی: ایلن بارڈر کے پارٹ ٹائم اسپن کا سامنا کرتے ہوئے گیٹنگ ریورس سویپ کے لیے گئے۔ وہ زیادہ خطرہ مول لینے والے کھلاڑی کے طور پر نہیں جانے جاتے تھے. گیند گیٹنگ کے بلے کو چھوتی ہوئی ان کے کندھے سے ہٹ کر کے سیدھی آسٹریلوی فیلڈر گریگ ڈائر کے ہاتھ میں آ گری. اس آسٹریلوی فیلڈر کو بھی یہ سب حیران کن نظر آرہا تھا لیکن اس نے چابکدستی سے گیند کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں دبوچنے میں ذرا برابر بھی غلطی نہیں کی.
گیٹنگ کی شاٹ بھی باقی ریورس سویپس کی طرح ایک خوبصورت شاٹ تھی. اگر وہ اسے باؤنڈری کے پار پہنچا پاتے تو کپتان کی حیثیت سے ان کے بہادر اور آگے بڑھنے کے انداز کی بہت تعریف ہوتی۔ لیکن ان کی بدقسمتی کے وہ نہ صرف اپنی وکٹ گنوا بیٹھے بلکہ انگلینڈ فائنل بھی ہار گیا۔ اس لیے بدنام زمانہ ریورس سویپ کو ہمیشہ کے لیے ایک بہترین بلے باز کی “کمزور ججمنٹ” کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اس کے پیچھے اپنا ٹھنڈا مزاج کھو دیا تھا اور پھر ورلڈ کپ بھی.
جب سے مشتاق محمد نے پہلی بار کیولیئرز کے لیے اس منفرد سٹروک کا انتخاب کیا تب سے تقریباً چھ دہائیوں کے بعد ریورس سویپ جدید بلے بازوں کے ہتھیاروں میں ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہ شاٹ جتنا خطرناک ہے اتنا ہی خوبصورت ہے. بلا شبہ مشتاق کی ایجاد جدید کرکٹ کے ڈی این اے میں ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔
مزید پڑھیں
زمین کے بارے میں 9 دلچسپ حقائق
”ریورس سویپ – مشتاق محمد کا شاٹ جس نے کرکٹ کو بدل دیا“ ایک تبصرہ